ایران میں جنو بی ساحل کے شاداب علا قہ گیلا ن میں ایک بستی نیق کے نواح میں ایک دبلا پتلا لمبے قد کا گندم گوں نوجوان ہل چلا رہا تھا .... بیلو ں کو ہانکتے ہوئے اس نے محسوس کیا جیسے وہ رک گئے ہوں .... ”عبدالقادر تم اس کا م کے لیے تو پیدا نہیں ہوئے “ ” بیل نے یہ کیا کہا؟.... اس کا مفہوم....وہ کیو ں بولا ؟ .... وہ تو ایسے بول رہا تھا۔ جیسے انسان ہو۔ ماں ! بیل نے مجھے کہا ہے کہ تم اس کام کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ بیٹے نے پورا واقعہ سنایا....ہاں بیٹا سچ ہی تو ہے، بیل نے سچ ہی تو کہا ہے، تم ہل چلانے اور بیل ہا نکنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ “
یہ نوجوان شیخ عبدالقادرجیلانی رحمتہ اللہ علیہ تھے، اور یہ ان کی والدہ ام الخیر تھیں، آپ اس وقت اٹھا رہ برس کے تھے اور والدہ اٹھہتر بر س کی۔ یہ عجیب بات تھی کہ ساٹھ بر س کی عمر میں کسی عورت کے ہا ں بچہ پیدا ہو۔ ” تم دوسرے بچو ں کی طرح کب ہو، آج تک تم نے نہ جھو ٹ بولا، نہ زبان سے گالی دی۔ مجھے یا د ہے جب تم میری گود میں تھے تو رمضان میں کبھی دن کو دودھ نہیں پیا تھا۔ ایک بار عید کے ہونے کا جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا تو سب نے کہا شیخ ابو صالح کے ہا ں جا کر پو چھو کہ ان کے بچے نے دودھ پیا ہے کہ نہیں ؟ “
آپ نے ما ں سے جب تحصیل علم کے لیے بغداد جانے کی اجازت چاہی تو وہ رودیں۔ چالیس دینار صدری میں بغل کے نیچے بطورِ زاد راہ سی کر فرمایا ”ہر معاملے کی بنیا د راست بازی پر رکھنا، تجھے خدا کے سپرد کرتی ہوں۔ “ آپ بغداد جانے والے ایک قافلے کے ساتھ شامل ہو گئے جس پر راستے میں ڈاکوﺅ ں نے حملہ کر دیا۔ لو ٹ مار کے بعد ایک قزاق نے پوچھا تیرے پا س کیا ہے ؟ “ آپ نے چالیس دینار کے بارے میں بتا دیا۔ وہ مذاق سمجھا پھر دوسرے قزاق سے بھی اسی قسم کی گفتگو ہوئی۔ پھر دونو ں نے اپنے سردار سے ذکر کیا جس کے حکم سے صدری سے دینا ر نکال لیے گئے۔ سر دار بو لا تم نے یہ کیو ں بتا یا، کسی کو ان کا علم نہ تھا ؟ آپ نے فرمایا میں نے اپنی ما ں سے عہد کیا تھا کہ سچ بولوں گا۔ اس عہد کو کیسے توڑتا ؟ سردار یہ سن کر رو دیا اور بو لا افسوس، پروردگار سے کیے عہد کا پاس نہیں کرتا جبکہ تو ما ں سے کیے ہوئے عہد کو نہیں توڑتا اور اس نے تو بہ کرلی اورقافلے والوں کا مال لوٹا دیا۔
486ھ میں آپ بغداد پہنچے کیو ں کہ علم و عرفان کے تمام راستے بغداد ہی کو جا تے تھے۔ معتز باللہ کا عہد تھا کہ شیخ غریبانہ اور طالب علمانہ، گھر سے چار سو میل دور، امیروں، رئیسوں، تاجروں صنعت کاروں اور کنیزوں کے اس شہر میں وارد ہو ئے۔ یہ بلند وبا لا عمارتو ں اورجگمگاتی روشنیو ں کا شہر تھا جس کے درمیان دجلہ رواں تھا۔ دن بھر لمبی لمبی بادبانی کشتیا ں سامانِ تجارت لانے اور لے جانے میں مصروف رہتیں اور شام کے وقت رﺅسا کے آراستہ پیرا ستہ جہاز سطح آب پر دکھائی دیتے۔ آپ نے ” مدرسہ نظامیہ “ میں داخلہ لے لیا۔
اساتذہ میں ابو زکریا تبریزی، علی ابنِ عقیل حنبلی، ابوالمحسن محمد بن قاضی ،ابوالعلٰے حنبلی، شیخ ابو الخطاب محفوذالکلوذاتی، ابوالبرکا ت طلحہ العاقولی، ابولغنا تم محمد بن علی میمون الفرسی، ابو عثمان اسماعیل بن محمد الاصبہانی، ابو طاہر عبدالرحمن بن احمد، ابو غالب محمد بن الحسن الباقلا نی، ابولعز محمد بن المختار الہاشمی اور ابو منصورعبدالرحمن القراز کے اسمائے گرامی زیا دہ معروف ہیں، آٹھ بر س کے بعد 494ھ میں دستارِ فضیلت ملی۔ جب آپ فارغ ہو گئے تو وقت کے علماءمیں کو ئی ہمسر اور ہم پلہ نہ تھا۔
شیخ کے اساتذہ کرام جن کے نام ہائے گرامی آپ نے پڑھے وہ سب کے سب حنبلی تھے۔ آپ بھی جب مسند درس و افتاءپر بیٹھے تو اس کے مطابق ہی درس و فتویٰ دیتے رہے۔
عقائد کے حوالے سے اس زمانہ میں بہت سے مکا تب فکر یعنی جبریہ، قدریہ، اشعریہ، اور ماتریدیہ وغیرہ موجود تھے۔ شیخ عقائد کے اعتبار سے اہل سنت و الجما عت کے اشعری مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ جبر و قدر کے حوا لے سے بھی اہل سنت و الجما عت کا مسلک ہی بیان فرما تے تھے کہ بندہ اپنے اعمال میں نہ تو مجبو رمحض ہے نہ مختار کل بلکہ ان دونوں کے درمیان کاہے۔
شیخ جب مدرسہ سے فارغ ہو کر کو چہ و بازار میں نکلے تو سوچنے لگے اس ساری تگ و دو کا محاصل کیا یہی دستارِ فضیلت ہے؟ علم نے مجھے راستہ تو دیا لیکن منزل کہا ں ہے؟ بے یقینی اور بے حاصلی کی اس دلدل سے نکلنے کا خیال بے چین کیے رکھتا۔ بغداد میں شور وہنگامے کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ تمام لو گ، وقتی لذتو ں کی تلا ش میں سر گر داں، علماء.... شہرت، امراء....قوت و اقتدار اور تاجر.... دولت کی جستجو میں مرے جا رہے تھے۔ دجلہ کے کنا روں پر گناہ کا سمندر موجزن تھا۔ شیخ کے تصور میں گیلان کا تصور ابھرتا۔ جہا ں ما ں کی عبا دت، باپ کی پاکبازی اور پھو پھی کی خدا ترسی کا چرچا تھا۔ جب ایک سال مینہ نہ برسا تو اہلِ گیلان پھو پھی کے گھر آکر طالب دعا ہوئے تو انہو ں نے آنگن میں جھا ڑو دے کر کہا اے اللہ میں نے جھاڑو دے دیا ہے تو چھڑکاﺅ کر دے۔ اور پھر مینہ بر سنے لگا۔ انہیں خدا سے کتنی محبت تھی .... خدا سے کتنا تعلق تھا؟
قر ب الہٰی کا کتنا احساس تھا ۔ محض کتا بیں پڑھ لینے سے یہ محبت، تعلق اور تقرب حاصل نہیں ہوتا۔ وہ طالب علمی کے کٹھن شب و روز اور آٹھ سالہ صعوبتوں کا جا ئزہ لے رہے تھے۔ جیسے وہ بے کیف گزر گئے ہوں۔ ایک دن قرآن بغل میں دبائے بابِ حلبہ کی جا نب چل دئیے کہ وہاں سے راستہ صحرا کی طر ف جاتا تھا....”تمہارا یہا ں رہنا ضروری ہے۔ تمہارے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔“ اس عجیب و غریب آواز کے ساتھ ہی دل کو اطمینان ہو گیااور پھر واپس لوٹ آئے۔ اگلے دن بغداد کے ایک محلے میں سے گزررہے تھے تو ایک شخص نے مکان کا دریچہ کھول کر کہا” عبدالقادر کل کیا ارا دہ تھا ؟“ شیخ یہ سن کر حیران رہ گئے۔ خود رفتگی کی کیفیت میں کہیں سے کہیں نکل گئے۔ ہو ش آنے پر دروازے کی تلا ش ہوئی لیکن ذہن نے ساتھ نہ دیا۔ دل کہہ رہا تھا تمام مشکلا ت کا حل اسی کے پاس ہے۔ کئی ما ہ ڈھونڈتے رہے، آخر اچانک ایک دن بازار میں اس شخص کو لپٹ گئے۔ یہ شیخ حمادالدباس تھے۔ دمشق کی بستی رحبہ کے رہنے والے، بغداد میں انگور اور خرما کا شیرہ فروخت کرتے اور محلہ منطفریہ میں مقیم تھے۔ اہل دل کا مرجع تھے۔ دوسری ملاقات پر کہا ” تو مولوی ہے، درویشو ں کے پاس تیر ا کیا کام، یہا ں سے چلتا بن۔ “ آپ باہر نکل گئے۔ ذرا دیر بعد پھر آگئے۔ انہو ں نے پھر اٹھا دیا۔ پھر آگئے۔ کئی دن ایسا ہی ہو تا رہا۔ پاس بیٹھنے والو ں نے پو چھا تو شیخ حمادالدباس بولے ” تم کیا سمجھو، تم میں سے کوئی بھی اس کے پا ئے کا نہیں ہے۔ “
شیخ حما دالدباس کی صحبت نے آتشِ عشقِ الہٰی کو خوب بھڑکا یا۔ دن کو روزہ رکھتے اور شام کو دجلہ کے کنا رے اُگنے والے سبزہ کوندل کی پتیوں سے افطاری فرماتے۔ گیا رہ بر س یہ سلسلہ جاری رہا ۔ایک دن بغداد سے نکلے۔ سینکڑوں میل دور نواحِ شستر میں جا پہنچے۔ جو بغداد سے بارہ دن کی مسافت پر ہے۔ آپ اپنی حالت پر متعجب ہوئے۔ ایک عورت پاس سے گزرتے ہوئے کہہ گئی۔ ” عبدالقادر ہو کر تعجب کر تے ہو۔“ گیارہ برس کی ریا ضت کے بعد کرخ کی خلوت گاہ کو چھوڑا اور حج بیت اللہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
بغداد کے لو گو ں نے ایک اجنبی کو پایا جو طالب علم کی حیثیت سے ان کے شہر میں آیااور آٹھ برس ایک اچھے طالب علم کی طرح گزارے۔ تیس بر س کے بعد جب اس نے زبان کھو لی تو فصحائے عرب گنگ ہو گئے۔
اس کے کلا م کی تاثیر کو صرف فصاحت و بلا غت کی فسوں طرا زی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی مجلس دلوں کے لیے مقناطیس تھی، گنا ہ گار آتے تو تائب ہو کر اٹھتے، غیر مسلم شریک ہو تے تو کلمہ پڑھ کر اٹھتے۔ وہ ایسے بیان کر تا۔ ”اُس پر نظر رکھو جو تم پر نظر رکھتا ہے۔ اپنا ہاتھ اُسے دو جو تم کو گرنے سے سنبھال لے گا اور تم کو جہل کی تاریکیوں سے نکال لے گا۔ جو شیا طین، خواہشیں اور تمہارے جاہل دوستوں سے نجات دے گا۔ کہا ں چلے تو اس خدا کو چھوڑ کر جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور بنانے والا ہے۔ اول ہے، آخر ہے، ظاہر ہے، باطن ہے، دلو ں کی محبت، روحوں کا اطمینا ن گرانیو ں سے سبکدوشی، بخشش و احسان، ان سب کا رجوع اسی کی طرف ہے، اور اسی کی طر ف سے اس کا صدور ہے ۔“
ایک مجلس میں اسی تو حید کے مضمون کو اس طر ح بیان فرمایا ” ساری مخلو ق عاجزہے۔ نہ کوئی تجھ کو نفع پہنچا سکتا ہے، نہ نقصان۔ بس حق تعالیٰ اس کو اس کے ہا تھو ں کرا دیتا ہے۔ جو کچھ تیرے لیے مفید ہے یا مضر ہے، اس کے متعلق اللہ کے علم میں قلم چل چکا ہے۔ اس کے خلا ف نہیں ہو سکتا۔ “
معبود انِ باطل کی تشریح کر تے ہوئے فرما تے ہیں ” آج تو اعتماد کر رہا ہے اپنے نفس پر ،مخلوق پر، اپنے دیناروں پر، اپنے درہموں پر، اپنی خرید و فروخت پر، اپنے شہر کے حاکم پر، ہرچیز کہ جس پر تو اعتما د کرے وہ تیرا معبود ہے اور ہر وہ شخص جس سے تو خوف کرے یا توقع رکھے، وہ تیرا معبود ہے اور ہر وہ شخص جس پر نفع و نقصان کے متعلق تیری نظر پڑے اور تو یو ں سمجھے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا جاری کرنے والا ہے۔ تو وہ تیرا معبود ہے۔
ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ( بے شک دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی (یعنی تمہاری لو نڈی ہے ) اور تم آخر ت کے لیے پیدا کیے گئے ہو کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ” دنیا میں سے اپنا مقسوم اس طر ح مت کھا کہ وہ بیٹھی ہوئی ہو اور تو کھڑا ہو، بلکہ اس کو اس طر ح کھا کہ تو بیٹھا ہوا ہو اور وہ طباق اپنے سر پر رکھے ہوئے کھڑی ہو۔ دنیا خدمت کرتی ہے اس کی جو حق تعالیٰ کے دروازے پر کھڑا ہو تاہے اورجو دنیا کے دروازے پر کھڑا ہو اہوتا ہے اس کو ذلیل کر تی ہے۔ حق تعالیٰ کے ساتھ عزت و تونگری کے قد م پر یہ شخصیت چالیس بر س تک ان کے درمیان اس انداز میں رہی اور دس ربیع الثانی 561ھ کو عالمِ بقا ءکی طرف روانہ ہوگئی۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 225
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں